چوری
مال انسانی زندگی کی ریڑھ کی ہڈی ہے اس کی بقا وحفاظت کی ااسلام نے ضمانت لی ہے اسی لیے ایسے قوانین بناے ہیں کہ کوئ شخص کسی کے مالکو چوری ۔ غصب ۔ لوٹ خیانت سود فریب۔ کم ناپ تول اور رشوت کے ذریعے برباد نہ کر سکےاور باطل کی راہ سے مال کھانے کو حرام قرار دے
البقرہ آیت 188
اے ایمان والوں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاو
مال کھانے کے ان تمام حرام ذرائع ہیں چوری سب سے بدترین ذریعہ ہے اسی لیے اللہ نے ان کی سزا بھی بڑی عبرتناک مقرر کی ہے
جو شخص کسی کے مال کوچپکے سے چرالے خواہ نیند کی حلت میں یا گھر میں نقب ڈالکر ۔ یا تالے توڑ کر تو یہ قابل سزاجرم ہے
ماں اور باپ کےبیٹے کے مالکی چوری کریں تو اس پر ہاتھ نہیں کاتا جاے گا
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے
تم اور تمہارا مال تمہارے باپ کا ہے
بد ترین بے روزگاریاور فقروفاقہ سے مجبورہو کر کوئ شخص اپنی اور اپنے بال بچوں کی جان بچانے کے لیے چوری کرے تو اس پر حد نہیں جاری کی جائیگی
چوتھائ دینار یا تین درہم سے کم مالکی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جاسکتا یعنی موجودہ سکہ کے اعتبار سے دس پندرہ روپے کی مال کی چوری پر
پورا ثبوت مل جاے اور چور کے اقرار کرلینے کے بعد اس کا داہنا ہاتھ کلائ کے پاس سےکاٹا جاے گا
عبرت کے لیے چور کا ہاتھ اسکی گردن میں لٹکایا جاے ۔۔
No comments:
Post a Comment